It’s a matter of great pleasure and satisfaction that SCCI is achieving its objective of serving and protecting rights of the business community of Khyber Pakhtunkhwa for its economic prosperity.
SCCI recently have successfully convinced Khyber Pakhtunkhwa and federal governments for provision of electricity to KP industries on wheeling charges, gas supply on priority to KP consumers under article-158 of the constitution, 24/7 opening of Torkham border, withdrawal of with-holding tax on filers and compensation package for losses due to Bus Rapid Transit (BRT). Indeed, realization of constitutional rights will help usher into era of social and economic prosperity through utilization of abundant natural resources for industrial development for the ultimate benefit of its inhabitants and by attracting invaluable foreign investment.
SCCI while keeping its tradition alive is holding Investment Opportunities Conference (IOC) for drawing attention of investors for exploitation of sectors of tourism, hydel (micro/small hydel projects with 30,000 MW potential)/solar/wind energy, mineral (marble, granite, chromite, copper etc.), gemstones (emerald, topaz, tourmaline etc.), honey (20 kinds), agri-business (tobacco, tea, olive, veggies, fruits, dates, fresh/dry fruits, medicinal plants etc.), livestock (goats, sheep, calf, birds, ostrich, poultry, fishery etc.) etc. to overcome losses of business community incurred during war against terror, disasters, refugee influx and IDPs for the last 40-years.
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر فضل مقیم خان نے کہا ہے کہ حکومت سے کو ختم کرنے ٗ لوز کارگو کی اجازت دینے ٗ پشاور سے کارگو ٹرین کا اجراء ٗ اضا خیل ڈرائی پورٹ کو فعال بنانے سمیت ایکسپورٹ سے لدے ہوئے مال بردار گاڑیوں کو کراچی پورٹ پر دوبارہ چیکنگ کے عمل کو بند کرنے اور مقامی سطح پر ایلوویشن کمیٹیوں کے قیام کا مطالبہ کیا جبکہ پاک افغان باہمی تجارت کو بڑھانے کے لئے کسٹمز ڈیوٹیز پر نظرثانی کرنے اور طورخم بارڈرز کو تجارت کے لئے فوری طور پر کھلنے پربھی زور دیا ہے۔ یہ مطالبہ انہوں نے گذشتہ روز چیف کلکٹر کسٹمز خیبر پختونخوا خواجہ خرم نعیم کے دورہ سرحد چیمبر کے موقع پر ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں سرحد چیمبر کے سینئر نائب صدر عبدالجلیل جان ٗ سابق صدورحاجی محمد آصف ٗ فیض محمد فیضی ٗ فواد اسحق ٗ زاہد اللہ شنواری ٗ حاجی محمد افضل ٗ سابق نائب صدر ملک نیاز محمد اعوان ٗ ممبران ایگزیکٹو کمیٹی ضیاء الحق سرحدی ٗ اشفاق احمد ٗ ندیم رؤف ٗ گل زمان ٗ سلطان محمد ٗ سابق صوبائی چیئرمین APCEA مشتاق احمد ٗ راشد اقبال صدیقی ٗ عفاف علی خان ٗ عاطف رشید خواجہ ٗ مظہر الحق ٗ احسان اللہ ٗ خالد سلطان خواجہ ٗ رحمان گل ٗسیکرٹری جنرل سرحد چیمبر مقتصد احسن ٗ کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس ٗ تاجر ٗ صنعت کار اور امپورٹرز اور ایکسپورٹرز نے شرکت کی۔ کلکٹر کسٹمز آپریزمنٹ پشاور متین عالم ٗ کلکٹر کسٹمز انفورسٹمنٹ پشاور ضیاء الحق شمس ٗ پی آر او آفتاب احمد ٗ دورہ کے دوران چیف کلکٹر کسٹمز خیبر پختونخوا کے ہمرزاہ ٹیم میں شامل تھے۔ سرحد چیمبر کے صدر فضل مقیم خان نے کہا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں کاروباری طبقہ کافی مشکلات سے دوچار ہے۔ حکومت ٗ محکمہ کسٹمز اور دیگر متعلقہ ادارے بزنس کمیونٹی کو ون ونڈو آپریشن کے تحت سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں تاکہ تاجروں کے مسائل کے حل سے ہی باہمی تجارت اور ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا اور معیشت کو دیرپا استحکام اور ترقی حاصل ہوگی۔ سرحد چیمبر کے صدرفضل مقیم خان نے تاجروں اور ایکسپورٹرز کی جانب سے طورخم بارڈر کی گذشتہ 21دنوں سے بندش ٗ بیورو کریٹس کی جانب سے نظام میں رکاوٹیں ٗ دشواریاں پیدا کرنے ٗ بارڈرز مینجمنٹ میں خامیوں ٗ ڈالرز ڈائرٹیشن پر پابندی اور دیگر مسائل کے بارے میں تحفظات سے چیف کلکٹر کسٹمز خرم نعیم کو تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔ سرحد چیمبر کے صدر فضل مقیم خان کا کہنا تھا کہ آئندہ روزہ معمولی بات پر طورخم بارڈرز کی بندش سے نہ صرف کاروباری طبقہ کی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے بلکہ اس کے باہمی تجارت اور ملکی معیشت پرگہرا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک انداز کے مطابق گذشتہ 21 دنوں سے بارڈرز کی بندش کی وجہ سے یومیہ 4ملین ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ دوسری جانب حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاک افغان باہمی تجارت کا حجم تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ انہوں نے اس موقع پر پشاور /اضا خیل ڈرائی پورٹس پر کلیرنگ کے عمل میں سست روی پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور پشاور سے ایکسپورٹ کے عمل میں تیزی لانے کے لئے ڈرائی پورٹس کو فعال بنانے بالخصوص پشاور سے کارگو ٹرین کے اجراء کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے دنوں جانب سے کسٹمز ڈیوٹیز ٗ ٹیرف پر نظرثانی کرنے پر زور دیا تاکہ پاک افغان باہمی تجارت کو مزید بڑھایا جاسکے۔ انہوں نے پشاور ڈرائی پورٹ پر مال بردار گاڑیوں کی چیکنگ کے بعد کراچی پورٹ پر دوبارہ چیکنگ کے عمل کے خاتمہ کا بھی مطالبہ کیا ہیے۔ انہوں نے کہاکہ پشاور ایکسپورٹ کارگو ٹرین کے اجراء سے پاکستان ریلویز کو خطیرریونیو حاصل ہوگا۔ اس تجویز پر فوری عملدرآمد کرتے ہوئے ایکسپورٹ کے عمل میں تیزی لائی جائے۔ قبل ازیں اجلاس سے سرحد چیمبر کے سابق صدور فواد اسحق ٗ حاجی محمد افضل ٗ زاہد اللہ شنواری ٗ فیض محمد فیضی اور ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ضیاء الحق سرحدی ٗ حاجی محمد اختر ٗ تاجروں ٗ ایکسپورٹرز اور امپورٹرز نے بھی خطاب کیا اور پاک افغان باہمی تجارت میں رکاٹوں ٗ نظام اور بارڈرزمینجمنٹ میں خامیاں ٗ بھاری ڈیوٹیز ٗ ٹیرف کے نفاذ اور دیگر مسائل کی تفصیلی طور پر نشاندی کی جو کہ پاک افغان باہمی تجارت کو بڑھانے میں رکاوٹوں کا باعث بن رہے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر مسائل کے حل کیلئے جامع تجاویز بھی پیش کیں۔ بعد ازاں شرکاء کے مختلف سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے چیف کلکٹر کسٹمز خواجہ خرم نعیم نے کہا ہے کہ تجارت میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ بارڈرز بندش سمیت دیگر مسائل کو اعلیٰ حکام کے ساتھ اٹھا کر حل کرانے میں محکمہ کسٹمز اپناکردارادا کرے گا۔
اکیڈمیا اور انڈسٹری کے درمیان قابل ذکر تعاون۔ UoT نوشہرہ اور SIDB کے درمیان مفاہمت نامے پر دستخط کی تقریب میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی صدر فضل مقیم خان، سابق چیمبر کے صدر انجینئر مقصود انور۔ حاجی وحید عارف اعوان، ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر انجینئر ذوالفقار علی صاحب زادہ امپ، ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر نعمان فیاض `اسٹیٹ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ۔ ڈائریکٹر فنانس بشیر احمد اور معروف صنعت کار نور الدین بھی موجود ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نوشہرہ (UoT) اور سمال انڈسٹری ڈویلپمنٹ بورڈ (SIDB) کے درمیان SIDB کے کانفرنس روم میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے پر SIDB کے منیجنگ ڈائریکٹر حبیب اللہ عارف اور UoT نوشہرہ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عمران خان نے وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے صنعت و تجارت عبدالکریم خان تورڈھر کی موجودگی میں دستخط کیے۔ ایم او یو کا مقصد تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا، مہارتوں کی نشوونما، تحقیق، اور مقامی صنعتوں کی مدد کے لیے جدید حل فراہم کرنا ہے۔ اس شراکت داری سے UoT طلباء کے لیے قیمتی مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے اور خطے میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
کمشنر پشاور ریاض خان محسود سے سرحد چیمبر کے صدرفضل مقیم خان ٗ تاجر انصاف کے صدر شاہد حسین ٗ تاجر رہنماء حبیب اللہ زاہد اور پشاور کی تاجر برادری کا اعلیٰ سطحی وفد ملاقات کر رہا ہے۔ اس موقع پر بزنس کمیونٹی کو د رپیش مسائل سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال ہوااور مسائل کے حل کیلئے کمشنر پشاور سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی۔ کمشنر پشاور ریاض خان محسود نے سرحد چیمبر کے صدر فضل مقیم خان اورتاجر رہنماؤں کو یقین دلایا کہ اُن کے مسائل کے حل کیلئے بھرپور اقدامات اٹھائے جائیں گے اور بزنس کمیونٹی کے مسائل حل کرکے ان کو ریلیف فراہم کریں گے۔
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدرفضل مقیم خان اور سینئر نائب صدر عبدالجلیل جان وفاقی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر (ایک سالہ کارکردگی سے متعلق)وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی زیر صدارت جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں شریک ہیں۔
The Khyber Pakhtunkhwa is the northwest province of Pakistan. Its total population according to 1998 census is around 17.744 million with an average growth rate of 2.82 per cent. The economically active population ratio of the province is 19.40 per cent. The total area of the province is 74521 square kilometers excluding the tribal belt, which spreads over an area of 27220 square kilometers. There are 7 divisions, 24 districts, 59 tehsil / taluka, 7326 villages with 30 municipal committees, 13 town committees and 11 cantonments in the Khyber Pakhtunkhwa. The tribal belt consists of 7 agencies with 42 tehsil, 2559 villages and 5 town committees. The 1998 census puts the total population of federally administered tribal area at 3.176 million. The unemployment rate of the Khyber Pakhtunkhwa is 26.80 per cent and if the figures of the tribal areas are taken into account, it may swell over to 30 to 35 percent. The literacy rate in the Khyber Pakhtunkhwa is 35.40 per cent and that of the tribal area is 17.40 per cent.